﷽
مسجد اور مولوی
مساجد ہر دور میں مسلمانوں کی عظمت اور عزت و جاہ کی علامت
رہی ہیں ۔مسلمان دنیا کے جس خطے میں بھی پہنچے وہاں سب سے پہلے انہوں نے مسجد کی
بنیاد رکھی۔مسجد مسلمانوں کے اتحاد و یگانگت کی نشانی ہے۔ اور ہر دور میں مسلمانوں
کا مرکز و محور رہی ہے۔ہر دور کے مسلمانوں
نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے مسجد کے تقدس کودشمنوں کے ناپاک عزائم سے محفوظ
رکھنے کی ہر ممکن سعی و کوشش کی اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے خدا کے حضور
سرخ رو ہوئے اور اس کے تقدس کی بحالی اور
مسجد کی عظمت کو بلندیوں کی معراج تک پہنچانے کاسہرا علمائے کرام اور مسجد کے
مولوی کے سر ہے۔اور اب بھی جب میں اپنی قوم کو اپنے مذہب سے دور ہوتے دیکھتا ہوں
اور مسجد کے مولوی کو خدائے بزرگ و برتر کی عظمت اور بڑائی بیان کرتے دیکھا ہوں تو
مسجد کے مولوی کی عظمت کا احساس دل میں پیدا ہوتا ہے۔
ایک زمانے مین ملَا اور مولوی کے القاب علم و
فضل کی علامت ہوا کرتے تھے۔ لیکن سرکار انگلشیہ کی علمداری میں جیسے جیسے ہماری تعلیم
اور ثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا اسی رفتار سے ملا اور مولوی کا
تقدس بھی پامال ہوتا گیا ۔رفتہ رفتہ نوبت
بایں جا رسید کہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک وتحقیر کی ترکش کے تیر بن
گئے۔داڑھیوں والے ناخواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملا کا لقب ملنے لگا۔
کالجوں ، یونیورسٹیوں اور دفتروں
میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنےوالے لوگوں کو طنز و تشنیع کے طور پر
مولوی کہا جانے لگا۔مسجد کے پیش اماموں پر جمعراتی ،شب براتی،عیدی،بکر عیدی اور
فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے قل اعوذے ملاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں ۔لو
سے جھلسی گرم دوپہر میں خس کی ٹٹیاں لگا کر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھی
بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی آذان ہر روز عین وقت پر کس طرح ہوتی رہتی
ہے۔کڑکڑاتے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ
ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی آذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا
ہے؟؟؟؟
دن ہو یا رات آندھی
ہو یا طوفان امن ہو یا فساد دور ہو یا نزدیک ہر زمانے میں شہر شہر ،گلی گلی،قریہ
قریہ چھوٹی موٹی کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملا کے دم سےآباد تھیں اور اب تک آباد ہیں
۔جو اب تک خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا تھا اور در بدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر
بار سے کہیں دور اللہ کے کسی گھر میں اللہ کی خوشنودی اور رضا کی خاطر سر چھپا کر
بیٹھا مسلمان قوم کا تعلق اپنے خالق حقیقی
کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتا رہا ہےاور اسلام دشمن قوتوں کے مذموم اور ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کی کوشش میں ہمہ
تن مصروف ہےاس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی ،نہ کوئی فنڈ تھا ،نہ کوئی تحریک پہلے
تھی اور نہ اب ہے۔
اپنوں کی بےاعتنائی ،بےگانوں کی
مخاصمت ،ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجوداس نے اپنی وضع قطع کو
بدلا نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے
مطابق اس نے کہیں دین کی شمع روشن کی ،کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن
رکھی۔
بعض اوقات ملا نے ایسی جگہ پر بھی جہاں دین کی چنگاری بھی گل ہو
چکی تھی ملا نے اس کی راکھ ہی کو سمیٹ سمیت کرباد مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔یہ
ملا کا ہی فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان کہیں نام کے مسلمان ثابت وسالم
برقرار رہے اور جب سیاسی میدان میں ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان آبادی کے اعدادو
شمار کی جنگ ہوئی تو ان سب کا انداج مردم شماری کے صحیح کالم میں موجود تھا ۔
برصغیر کے مسلمان عموماًاور پاکستان کے مسلما ن خصوصا ًملا کے اس احسان عظیم سے
کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی
بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم
رکھا۔
﴿محمد بلال﴾
﴿ختم شد﴾
No comments:
Post a Comment